Sunday 28 February 2016

حقوق نسواں بل جسے مئی 2015 میں پیش کیا گیا اور 2016 فروری میں منظور ہوا


اس بل کے آرٹیکل 7 میں 11 شقیں ہیں ؛ جن پر بنیادی طور پر ہماری جماعت کو تحفظات ہیں(خاندانی نظام کے حوالے سے)
(1)
پولیس کو رپورٹ کرنے کے بعد مرد عورت سے کسی قسم کی بات کرنے کا مجاز نہیں ہوگا----

(2) پولیس مرد کو پابند کرسکتی ہے کہ وہ کسی بھی طرح عورت کے نزدیک نہ آنے پائے

(3)عورت سے دوری کی کیا حیثیت ہوگی آیا اسے شہر بدر کیا جائے گا یا گھر سے باہر اس چیز کا تعین پولیس یا کورٹ کرسکتی ہے ..

(4)رپورٹ کرنے کے بعد مرد پر لازم ہوگا کہ وہ پولیس کی لگائی گئی ٹریکر ڈیوائس کو اپنے ہاتھ کی کلائی یا پنڈلی میں پہنے رکھے تاکہ اس کی موومنٹ چوبیس گھنٹے ساتوں دن ریکارڈ کی جا سکے

(5) کسی دوسرے شخص کے ذرئعے عورت کو نقصان پہنچانا یا ظلم میں معاونت کرنا بھی انتہائی جرم تصور ہوگا

(6)جس گھر میں مرد نے عورت کو رکھا ہوا ہے اس گھر سے مرد دور رہے گا وہاں جانے کی اجازت نہیں ہے

(7)عورت کے ماں باہ کے گھر یا جہاں عورت کا آنا جانا زیادہ ہو مرد وہاں بھی نہیں جا سکے گا

(8)اگر عورت جاب کرتی ہے تو اس کی کمپنی کئ حدود میں مرد کے داخلے پر پابندی ہوگی

(9) عورت کے بچے عورت کی تحویل میں رہیں گے، جبکہ مرد کو بچوں اور عورت کے رشتہ داروں سے بھی قطع تعلقی کرنی ہوگی تا وقتیکہ صلح صفائی کا کورٹ کا فیصلہ آجائے..

یہ وہ نکات ہیں جن کی بنیاد پر پر مولانا نے کہا کہ یہ خاندانی نظام کو تباہ کرنے کا قانون ہے جبکہ یہ بل 25 مئی 2015 کو پنجاب اسمبلی میں پیش کیا گیا تھا جس پر ن لیگ کی کچھ اراکین کے بھی تحفظات تھے، لیکن کھینچا تانی او دباؤ سی بالاخر سات ماہ بعد اسے منظور کرا ہی لیا گیا ..

اس بل کے مندرجات مشرف دور کے تحفظ حقوق نسواں بل سے لئے گئے ہیں


Subscribe here for more stuff

0 comments:

Post a Comment