Friday 4 March 2016

ممتاز قادری کی پھانسی کا معاملہ


ممتاز قادری کو سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے قتل کے جرم میں تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔
پاکستان کے قانون میں قتل کی یہی سزا درج ہے اور اسی پر عمل درآمد ہؤا۔ یہ ریاست کا فرض اور معاشرے کی ذمہ داری تھی کہ قانون کی پاسداری ہو۔ اس معاملہ میں کسی قسم کی کوتاہی کا نہ تو تصور ممکن ہے اور نہ اسے برداشت کیا جا سکتا ہے۔ خدا کا قانون بھی یہی کہتا ہے۔
جب ایک عورت رسولِ خدا کے پاس آئی اور اپنے لئے زنا کا مرتکب ہونے کا اقرار کیا اور پھر اس اقبال جرم پر قائم رہی تو اس پر حد جاری کر دی گئی کہ یہی لازم تھا۔ البتہ جب سزا پر عملدرامد کے دوران اسی خاتون کا لہو صحابی رسول کے کپڑوں پر آ گرا اور انہوں نے اس عورت کے لئے نامناسب الفاظ کہے تو حد جاری کرنے والی ہستی (نبی صلی اللہ علیہ و الہ وسلم) نے فرمایا اس نے جو توبہ کی ہے وہ پورے مدینہ کو کافی ہے۔
ممتاز قادری نے قانون اپنے ہاتھ میں لیا، اس کی سزا ملنا منطقی نتیجہ تھا۔ تاہم اس سزا سے گزرنے کے بعد یہ فیز ختم ہؤا، اب اللہ تعالی کے ہاں معاملہ ہے اور وہ اپنا کام خوب جانتا ہے۔
بات یہاں ختم نہیں ہوتی۔ ممتاز قادری کی پھانسی کے کچھ اور اثرات بھی مرتب ہوں گے۔
سب سے پہلے تو یہ کہ آج یہ بات طے ہوگئی کہ پھانسی انسانی حقوق کا معاملہ نہیں بلکہ انصاف کا ایک معروف طریقہ ہے۔ پھانسی کے تمام سابق مخالفین کی خاموشی اور ان کے بیانات کا ڈھنگ اس کی تائید کرتے نظر آتے ہیں۔
دوسرا یہ کہ حکومت پر بھی اب دباؤ آئے گا کہ وہ توہین رسالت کے قانون سے کس قسم کی چھیڑ چھاڑ سے باز رہے۔ مزید یہ کہ جو لوگ اس کے تحت سزا یافتہ ہیں ان کے متعلق بھی سزا پر عمل درآمد کیا جائے۔
تیسرا ۔۔۔۔ توہین آمیز گفتگو کرنے والوں اور اس کے جواب میں انتہائی اقدام پر اکسانے والوں، دونوں کے خلاف کاروائی اب ضروری ہے۔ ہر دو افراد اس معاشرے کا سکون اکارت کرنے پر تلے ہیں۔
چوتھا یہ کہ معاشرے میں قانون کی بلاامتیاز بالادستی اور ایک قابل اعتبار نظام انصاف کی بات کو مزید مؤخر کیا گیا تو انتہائی درجہ کی سزاؤں پر ریاست کی مناپلی تادیر برقرار نہیں رہ پائے گی۔ اس بابت جلد ٹھوس اقدامات اٹھانا ہوں گے۔ ورنہ ممتاز قادری بھی آتے رہیں گے، طالبان بھی اور ٹارگٹ کلر بھی۔
قادری صاحب کے نادان ہمدرد اگر ذاتی نان و نفقہ کے چکر میں نہ پڑ گئے تو ممتاز قادری ایک ریفرنس پوائنٹ کا نام بن سکتا ہے۔
جو دوست حوروں وغیرہ کا تذکرہ فرما کر طنزیہ پیرایہ اپنائے ہوئے ہیں ان کو یہ بھی غور کرنا چاہیے کہ اول تو یہ طے کرنا ہمارا کام نہیں، دوسرا یہ کہ قاتل و مقتول میں سے بہتر انجام کے لئے اگر کسی ایک کو چننا ہو تو کس کا امکان زیادہ ہے۔
ڈاکٹر عاصم کی فیس بک وال سے کاپی کی گئی تحریر




Subscribe here for more stuff

0 comments:

Post a Comment