Friday 15 January 2016

جون ایلیا کی نظم


ابھی اک شور سا اٹھا ہے کہیں​
کوئی خاموش ہوگیا ہے کہیں​
ہے کچھ ایسا کہ جیسے یہ سب کچھ​
اس سے پہلے بھی ہوچکا ہے کہیں​
تجھ کو کیا ہوگیا کہ چیزوں کو​
کہیں رکھتا ہے ڈھونڈتا ہے کہیں​
جو یہاں سے کہیں نہ جاتا تھا​
وہ یہاں سے چلا گیا ہے کہیں​
آج شمشان کی سی بو ہے یہاں​
کیا کوئی جسم جل رہا ہے کہیں​
ہم کسی کے نہیں جہاں کے سوا​
ایسی وہ خاص بات کیا ہے کہیں​
تو مجھے ڈھونڈ میں تجھے ڈھونڈوں​
کوئی ہم میں سے رہ گیا ہے کہیں​
کتنی وحشت ہے درمیانِ ہجوم​
جس کو دیکھو گیا ہوا ہے کہیں​
میں تو اب شہر میں کہیں بھی نہیں​
کیا مرا نام بھی لکھا ہے کہیں​
اسی کمرے سے کوئی ہوکے وداع​
اسی کمرے میں چھپ گیا ہے کہیں​
مل کے ہر شخص سے ہوا محسوس​
مجھ سے یہ شخص مل چکا ہے کہیں​
جون ایلیا
June Aelia


Subscribe here for more stuff

0 comments:

Post a Comment