Friday, 23 November 2012

Information about QURAN

سوال60:وہ کونسی سورت ہے جس کا آغاز دو پھلوں کے نام سے ہوا ہے؟
جواب:سورہ تین [تین، زیتون]


سوال 2: قرآن کریم کو کتنے ناموں کے ساتھ موسوم کیا گیا ہے؟
جواب: قرآن کریم کو متعدد ناموں سے موسوم کیا گیا ہے:
(1) الکتاب (2) الفرقان (3) التنزیل (4) الذکر (5) النور (6) الھدی (7) الرحمتہ (8) احسن الحدیث (9) الوحی (10) الروح (11) المبین (12) المجید (13) الحق۔



ن الٰہی ہے {ویسئلونک عن المحیض قل ھو اذی فا عتز لوا النساء فی المحیض ولا تقربو ھن حتی یطھرن }[آپ سے حیض کے بارے میں سوال کرتے ہیں کہہ دیجئے کہ وہ گندگی ہے حالت حیض میں عورتوں سے الگ رہو اور جب تک وہ پاک نہ ہو جائیں ان کے قریب نہ جاؤ] ( سورہ بقرہ آیت:222)

سوال200:وہ کون سی آیت ہے جس میں یہ کہا گیا ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کو تسلیم نہ کرنا کفر ہے؟
جواب: وہ آیت یہ ہے {فلا وربک لا یومنون حتی یحکموک فیما شجر بینھم ثم لا یجدوا فی انفسھم حرجا مما قضیت و یسلموا تسلیما} (سورہ نساء آیت:25)[سو قسم ہے تیرے پروردگار کی! یہ مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ تمام آپس کے اختلاف میں آپ کو حاکم نہ مان لیں ، پھر آپ جو فیصلے ان میں کر دیں ان سے اپنے دل میں کسی طرح کی تنگی اور نا خوشی نہ پائیں اور فرمانبرداری کے ساتھ قبول کر لیں]
بنت واحد
27-09-11, 05:39 AM
سوال201:قرآن مجید کی کس آیت میں یہود و نصاری اور کافروں سے دوستی لگانا حرام قرار دیا گیا ہے؟
جواب: ارشاد باری تعالٰی ہے{یاایھا الذی امنوا لا تتخذوا الیھود و النصاری اولیاء بعض ومن یتو لھم منکم فانہ منھم ان اللہ لا یھدی القوم الظالمین}[اے ایمان والو! یہود و نصاری کو اپنا دوست نہ بناؤ یہ آپس میں ہی ایک دوسرے کےدوست ہیں اور تم مین سے جو ان کو دوست بنائے گا وہ ان ہی میں سے ہو گا بلا شبہ اللہ ظالم قوم کو ہدایت نہیں دیتا] ( سورہ مائدہ آیت: 51)
دوسری آیت ہے{یا ایھا الذین امنوا لا تتخذوا عدوی وعدوکم اولیاء تلقون الیھم بالمودۃ و قد کفروا بما جاء کم من الحق یخرجون الرسول وایاکم ان تومنوا باللہ ربکم}[اے ایمان والوں! میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ تم تو دوستی سے ان کی طرف پیغام بھیجتے ہواور حالانکہ وہ اس حق کے ساتھ جو تمہارے پاس آ چکا ہے کفر کرتے ہیں وہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور خود تمہیں بھی محض اس وجہ سے جلا وطن کرتے ہیں کہ تم اپنے رب پر ایمان رکھتے ہو ] (سورہ ممتحنہ آیت: 1 ) اس بارے میں اور بھی بہت سی آیتیں ہیں۔

سوال202:قرآن مجید کی کس آیت میں اللہ تعالٰی نے درود و سلام پڑھنے کا حکم دیا ہے؟
جواب: ارشاد باری ہے{ان اللہ وملائکتہ یصلون علی النبی یاایھا الذی امنو اصلو اعلیہ وسلموا تسلیما}[اللہ تعالٰی اورس کے فرشتے اس نبی پر رحمت بھیجتے ہیں اے ایمان والو ! تم (بھی) ان پر درود بھیجواور خوب سلام بھی بھیجتے رہا کرو ] ( سورہ احزاب آیت:56)

سوال203:کیا دعوت تبلیغ کی وجہ سے غیر مسلموں کو ترجمہ قرآن دیا جا سکتا ہے؟
جواب:جی ہاں دعوت و تبلیغ کی غرض سے ترجمہ قرآن دیا جا سکتا ہے، فضیلۃ الشیخ عبداللہ بن جبرین حفظہ اللہ سے پوچھا گیا، کیا غیر مسلم ترجمہ و تفسیر قرآن چھو سکتا ہے؟ شیخ نے جوابا فرمایا اگر غیر مسلم قرآن کے معنی اور مفہوم کو جاننا، سمجھنا اور اس سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہو اور اس کی ہدایت کی امید ہو تو اسے ترجمہ و تفسیر دینے میں کوئی مضائقہ نہیں ہےگرچہ اس میں ترجمہ و تفسیر کے ساتھ قرآنی آیات بھی تحریر ہوں، دیکھئے (ابو انس علی بن حسین کی کتاب فتوی و احکام الی الداخلین فی الاسلام)
آج چونکہ غیر مسلموں میں قرآن فہمی کا ذوق و شوق بڑی تیزی سے بڑھ رہا ہے اس لئے قرآن کے ترجمہ کو مسلمانوں اور غیر مسلموں میں زیادہ سے زیادہ پھیلانا چاہئے تاکہ قرآن کا پیغام گھر گھر پہنچے اور غافل لوگ ہوشمیں آئیں نیز غیر مسلموں پر اللہ کی حجت قائم ہو۔

سوال204:بعض لوگون کا خیال ہے کہ عوام قرآن نہیں سمجھ سکتے، قرآن سمجھنا صرف علماء کا کام ہے عوام کے لئے بزرگوں کی کتابیں پڑھ لینا کافی ہے تو کیا واقعتا قرآن صرف علما کے سمجھنے کے لئے ہے؟
جواب:قرآن صرف علماؤں کے سمجھنے کے لئے نہیں ہے بلکہ یہ تمام انسانوں کے لئے کتاب ہدایت ہے اور اس کا تقاضا ہے کے لوگ اس کا مطالعہ کریں اور اسے سمجھیں کیونکہ قرآن تو اپنے نزول کا مقصد ہی {لعلکم تعقلون}[تاکہ تم سمجھو] بتلاتا ہے ( سورہ یوسف آیت:2)قرآن کہتا ہے{ولقد یسرنا القرآن للذکر فھل من مدکر}[اور ہم نے قرآن کو آسان بنایا ہے نصیحت حاصل کرنے کے لئے تو ہے کوئی نصیحت حاصل کرنے والا](سورۃ القمر آیت:17) اس لئے یہ خیال کرنا کہ قرآن کو صرف علما ہی سمجھ سکتے ہیں سراسر غلط اور بے بنیاد ہے اور یہ در حقیقت لوگوں کو قرآن سے محروم کرنے کی ایک سازش ہے۔ ( ماخوذ من کتاب کیا قرآن کو سمجھ کر پڑھنا ضروری نہیں؟ للشیخ شمس پیرزادہ)

سوال205:کتنے دنون میں قرآن ختم کرنا بہتر ہے؟
جواب:قرآن ختم کرنے کے سلسلہ میں سلف کی عادتیں مختلف رہی ہیں بعض دو ماہ میں قرآن ختم کیا کرتے تھے اور بعض ایک ماہ میں، بعض دس دنوں میں بعض سات دنوں میںقرآن ختم کرنے کا عمل اکثر سلف کا رہا ہے۔ (علامہ نودی کی کتاب الاذکار ص 153)
بعض سے تین دن سے کم میں قرآن ختم کرنا اور بعض سے ایک دن اور ایک رات میں بھی قرآن ختم کرنا ثابت ہے، اس سلسلہ میں حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ وعنہما کا واقعہ مشہور ہے صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عمرو سے روایت ہےکہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے خبر ملی ہے کہ تم روزانہ روزہ رکھتے ہو اور ایک رات میں قرآن پڑھ لیتے ہو ، میں نے کہا یا رسول اللہ یہ سچ ہے اور اس سے مقصول صرف اور صرف نیکی کا حصول ہے آپ صلی اللہ وعلیہ وسلم نے فرمایا داؤد ولیہ السلام والا روزہ رکھو بیشک وہ بندوں میں بڑے عبادت گزار تھےاور مہینہ بھر میں قرآن ختم کیا کرو، میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں تو اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں آپ نے فرمایاتو پھر دس روز میں ختم کر لیا کرو، میں نے کہا کہ اے اللہ کے نبی ! میں تو اس سے بھی زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو پھر ایک ہفتے میں ختم کر لیا کرو اور اس سے آگے نہ بڑھو،
اس حدیث سے بعض لوگوں نے استدلال کرتے ہوئے قرآن ختم کرنے کی کم از کم مدت ایک ہفتہ بیان کی ہے، اور بعض لوگوں نے قرآن ختم کرنے کی کم سے کم مدت تین روز بیان کی ہے اور ان لوگوں نے عبداللہ بن عمر کی اس حدیث سے دلیل پکڑی ہے جس کو امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے ابواب القراء ات عن رسول صلہ اللہ علیہ وسلم کے تحت بیان کیا ہے حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا {لم یفقہ من قرا القرآن فی اقل من ثلاث}[جس نے تین دن سے کم میں قرآن کو ختم کیا اس نے قرآن کو نہیں سمجھا] ( دیکھئے علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب سلسلہ الصحیحہ : 1513)
امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ آدمی کی طاقت اور دلچسپی پر موقوف ہے، اس سلسلہ میں راجح بات وہی ہے جو علامہ نوعی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے کہ کم از کم سات دن میں قرآن ختم کرنا چاہیے۔

سوال206: بے وضو قرآن چھونا کیسا ہے؟
جواب:اس سلسلہ میں علما کی رائے مختلف ہے بعض کی رائے یہ ہے کہ بے وضو قرآن نہ چھوا جائے اور ان کی دلیل قرآن کریم کی یہ آیت ہے {لا یمسہ الا المطھرون}[قرآن کو صرف پاک لوگ ہی چھو سکتے ہیں] ( سورہ واقعہ آیت :79) اور کہتے ہیں کہ اس آیت سے مرادجنابت اور حدث سے پاک لوگ ہیں اس لئے بے وضو قرآن چھونا منع ہے ان حضرات نے عمرو بن حزم کی اس حدیث سے بھی یہ دلیل لی ہے جسے امام مالک نے روایت کیا ہے {لا یمس المصحف الا طاھر}قرآن کو صرف پاک لوگ چھوتے ہیں ، لیکن یہ حدیث سند کے اعتبار سے ضعیف ہے۔
بعض علما کی رائے یہ ہے کہ بے وضو قرآن چھو سکتا ہے اور کہتے ہیں کہ اس کی ممانعت کی کوئی صحیح اور صریح دلیل نہیں ہے،( نیز امام ابن حزم رحمۃ اللہ نے اپنی کتاب المحلی میں، امام ابن القیم رحمۃ اللہ نے البیان فی اقسام القرآن میں ، اور امام شوکانی رحمۃ اللہ نے نیل الاعطار میں اسی کو راجح قرار دیا ہے، عبداللہ بن عباس، سلمان فارسی رضی اللہ عنہ شعبی اور امام ابو حنیفہ وغیرہم کی یہی رائے ہے)

سوال207:قرآنی آیتوں اور سورتوں کو لکھ کر گھر کی دیواروں، دکانوں، گاڑیوں اور چوراہوں پر لٹکانا کیسا ہے؟
جواب:افتاء کی دائمی کمیٹی کا فتوی ہے کہ قرآنی آیتوں اور سورتوں کو لکھ کر گھر کی دیواروں، دکانوں، گاڑیوں اور چوراہوں پر لٹکانا درج ذیل اسباب کی بنا پر منع ہے:
(1) قرآنی آیات اور سورتوں کے لٹکانے میں نزول قرآن کے مقاصد سے انحراف ہے۔
(2)یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاء راشدین کے عمل کے سراسر خلاف ہے۔
(3) اللہ نے قرآن کریم پڑھنے کے لئے نازل کیا ہے نہ کہ تجارت کو فروغ دینے کے لئے۔
(4) اس میں آیات قرآنی کی بے حرمتی اور توہین ہے۔
(5)ایسا کرنے سے شرک کا دروازہ کھلنے کے ساتھ ساتھ آیات قرآنی پر مشتمل تعویذ و گنڈے کے جواز کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔
بنت واحد
01-10-11, 05:29 AM
سوال208: کیا ختم قرآن کی کوئی مخصوص دعا ہے؟
جواب:ختم قرآن کی کوئی مخصوص دعا نہیں ہے اور ختم قرآن کی جتنی دعائیں مروج ہیں ان کی مشروعیت پر کوئی دلیل نہیں ہے، اور نہ ہی کوئی مرفوع حدیث اس سلسلے میں آئی ہےجس سے ختم قرآن کے وقت ان دعاؤں‌کی التزام پر حجت قائم کی جا سکے، ان مشہور دعاؤں میں سے ( دعاء ختم قرآن ہے) جس کی نسبت شیخ السلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کی طرف کر دی گئی ہے حالانکہ اس دعاء ختم القرآن کی نسبت کسی بھی صورت میں‌صحیح نہیں ہے۔
شیخ عبد الرحمٰن بن قاسم رحمۃ اللہ علیہ کی وصیت ہے کے اس دعا کو شیخ الاسلام کے فتادی ( مجموع فتاوی لابن تیمیہ) میں شامل نہ کیا جائے کیوں کہ اس دعا کی نسبت ان کی طرف مشکوک ہے۔ دیکھئے شیخ ابو بکر زید حفظہ اللہ کیکتاب ( الاجزاء الحدیثیۃ ص 239 کا حاشیہ، بحوالہ کتاب اللہ داب مطبوع دار القاسم، الریاض)
اور یہاں پر آپ کے فائدے کے لئے یہ بھی بتا دوں کہ نماز تراویح میں امام یا منفرد کا رکوع سے پہلے یارکوع کے بعد ختم قرآن پڑھنے کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ سے کچھ بھی ثابت نہیں ہے، البتہ قاری قرآن نماز سے باہر ختم قرآن کی دعا کرے تو یہ جائز ہے کیوں کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ اور تابعین کی ایک جماعت سے ایسا کرنا ثابت ہے۔ (دیکھئے شیخ بکر ابو زید حفظہ اللہ کی کتاب مروبات دعاءختم القرآن ص 290 )

سوال209:تلاوت قرآن سے فارغ ہو کر صدق اللہ العظیم کہنا کیسا ہے اور کیا ایسا کہنے پر کوئی دلیل ہے؟
جواب:قرآن کی تلاوت سے فارغ ہو کر صدق اللہ العظیم لہنے کی کوئی دلیل نہیں ہے گرچہ یہ اکثر قاریوں کا عمل ہے لیکن اکثریت کا عمل اس کے حق اور سچ ہونے کی دلیل نہیں ہے، فرمان الٰہی ہے {وما اکثر الناس ولو حرصت بمومنین}البتہ جو لوگ قرآن کی تلاوت سے فارغ ہوکر صدق اللہ العظیم کہنے کے قایل نہیں ہیں ان کے ساتھ دلیل ہے جیسا کہ امام بخاری و امام مسلم رحمہم اللہ علیہھم اجمعین نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے قرآن پڑھ کر سناؤ، میں نے کہا آپ کو پڑھ کر سناؤں حالانکہ یہ آپ ہی پر نازل ہوا ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں چاہتا ہوں کہ اس کو دوسروں سے سنوں پھر عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے سورہ نساء پڑھنی شروع کی، یہاں تک کہ اس آیت پر پہنچے{فکیف اذا جئنا من کل امۃ بشھید و جئنا بک علی ھئولاء شھیدا}[کیا حال ہو گا جس وقت ہم لائیں گے ہر امت میں سے ایک گواہی دینے والا اور لائیں گے ہم تجھ کو ان سب کے اوپر گواہ بنا کر] ( سورہ نساء آیت:41) تو آپ نے فرمایا رک جاؤ(یہی اتنا کافی ہے)
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے دیکھا آپ کی آنکھیں اشک آلود ہیں ، میرے ماں اور باپ آپ پر قربان ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن مسعود سے یہ نہیں فرمایا کہ صدق اللہ العظیم کہو اور نہ ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ثابت ہے اور نہ ہی صدر اول میں اس کا رواج تھاکہ وہ تلاوت قرآن سے فارغ ہوتے وقت صدق اللہ العظیم کہتے تھےاور نہ ہی ڈحابہ کے بعد سلف صا لحین سے ایسا جانا گیا، اب سوائےاس کے کوئی چارہ نہیں رہ گیا کہ یہ کہا جائے کہ یہ بدعت ہے۔
سعودی عرب کے افتاء دائمی کمیٹی کا فتوی ہے کہ صدق اللہ العظیم بذات خود اچھا ہے لیکن قرات سے فارغ ہوتے وقت ہمیشہ صدق اللہ العطیم کہنا بدعت ہے اس لئے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاء راشدین سے ایسا کرنا ثابت نہیں ہے جب کے وہ لوگ کثرت سے تلاوت کرنے والے تھےتو معلوم ہوا کہ صدق اللہ العظیم کہنے پر کتاب و سنت اور صحابہ کے عمل سے کوئی دلیل نہیں ملتی بلکہ یہ متاخرین کی بدعت ہے، فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے ( من عمل عملا لیس علیہ امرنا فھو رد) جس نے کوئی ایسا کام کیا جس پر ہمارا معاملہ دین نہیں ہے تو وہ مردودہے
( من احدث فی امرنا ھذا ما لیس منہ فھو رد) جس نے ہمارے اس دین میں ایسی بات ایجاد کی جو اس میں نہیں تو وہ مردود ہے (دیکھئےشیخ فواد بن عبد العزیز الشلہوب کی کتاب (کتاب الاداب۔ باب آداب تلاوۃ القرآن وما یتعلق بہ)

سوال210:قرآن کی تلاوت کرتے اور سنتے وقت رونا کیسا ہے؟
جواب:قرآن کی تلاوت کرتے اور سنتے ہوئے رونا ثابت ہے اور دونوں کے لئے حدیث آئی ہوئی ہے۔
پہلی حدیث جس کو عبداللہ بن شخیر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ہے۔
{اتیت النبی صلی اللہ علیہ وسلم وھو یصلی ولجو فہ ازیز کا ز یز المرجل}[سنن رترمذی، مسند و احمد، سنن ابو داؤد، اور سنن نسائی، اس حدیث کی سند قوی ہے]
عبداللہ بن شداد کا بیان ہے کہ میں نے حضرت عمر رضٰ اللہ عنہ کے رونے کی آواز سنی جب کہ میں آخری صف میں تھا آپ {انما اشکوبثی وحزنی الی اللہ}پڑھ رہے تھے۔دوسری حدیث وہ ہے جس کو عبداللہ بن مسعود نے بیان کیا ہے، (صحیح بخاری باب اذا بکی الامام ف الصلاۃ)
مذکورہ دونوں حدیثوں سے یہ معلوم ہوا قرآن تلاوت کرتے اور سنتے وقت رونا جائز ہےالبتہ بعض لوگ جو چیختے چلاتے اور آہ و بکاء کرتے ہیں یہ سیدھے راستے سے انحراف و روگردانی اور خشوع و خضوع کے خلاف ہے آج لوگ قنوت میں امام کی دعائیں سن کر روتے اور آنسو بہاتے ہیں لیکن اللہ کا کلام اور آیات سن کر نہیں روتے۔

سوال211:سجدہ تلاوت کرنے کا کیا حکم ہے؟
جواب:سجدہ تلاوت واجب نہیں بلکہ سنت ہےاور اس کے سنت ہونے اور عدم و جوب کی دلیل یہ ہے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ
میںنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سورہ نجم پڑھی اور آپ نے سجدہ نہیں کیا۔(صحیح بخاری: حدیث 1037،صحیح مسلم حدیث:577)
اسی طرح حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے جمعہ کے دن ممبر پر خطاب کے دوران سورہ نحل کی تلاوت کی اور پھر سجدہ کے مقام پر سجدہ کیا،پھر اس کے بعد والے جمعہ کو سورہ نحل کی تلاوت کی اور جب سجدہ کے مقام پر پہنچے تو فرمایا:
اے لوگو! ہم سجدہ سے گذر رہے ہیں تو جس نے سجدہ کیا اس نے درست کیا اور جس نے سجدہ نہیں کیا اس پر کوئی گناہ نہیں اور آپ نے سجدہ نہیں کیا اور نافع نے حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت کرتے ہوئے یہ اضافہ کیاہے۔
اللہ تعالٰی نے ہم پر سجدہ تلاوت فرض نہیں قرار دیا بلکہ ہماری چاہت پر چھوڑ دیا ہے۔ ( صحیح بخاری حدیث:1077)
خلاصہ کلام یہ ہے کہ سجدہ تلاوت گرچہ واجب نہیں تاہم تلاوت قرآن کرنے والے کو چاہیے کہ جب سجدے کی آیت سے گذرے تو سجدہ کرے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت شدہ یہ دعاء پڑھے:
{اللھم لک سجدت وبک امنت ولک اسلمت سجد وجھی للذی خلقہ و صورہ وشق سمعہ و بصرہ تبارک اللہ احسن الخالقین}[صحیح مسلم حدیث:771]

سوال212:قرآن کی تلاوت سے فارغ ہو کر قرآن کو چومنا اور اسے پیشانی سے لگانا اور چہرے پر رکھنا کیسا ہے؟
جواب: قرآن کی تلاوت سے فارغ ہو کر قرآن کو چومنا اور اسے پیشانی سے لگانا اور چہرے پر رکھنابدعت ہے، (دیکھیےشیخ رائد بن صبری بن ابی علفہ کی کتاب معجم البدع)
قرآن چومنے والے اسے پیشانی سے لگانے والے اسے کہتے ہیں کہ ہم ایسا قرآن کے احترام اور تعظیم میں کرتے ہیں جب کہ ہم کہتے ہیں کہ قرآن اور حدیث نبوی کا احترام اس میں ہے کہ اسے نہ چوما جائے،کیوں کہ یہ ایسا عمل ہے جو آپ سے، آپ کے صحابہ، تابعین اور تبع تابعین رحمہم اللہ اجمعین سے ثابت نہیں ہے۔
امام احمد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں گرچہ چومنے میں قرآن کا احتام اور عظمت ہے لیکن بہتر یہ ہے کہ ایسا نہ کیا جائے۔
کیا آپ کو معلوم نہیں کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے جب بیت اللہ کا طواف کیا تو بیت اللہ کے تمام رکنوں کا بوسہ لیا تو حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے حضرت معاویہ کو ٹوکا تو حضرت معاویہ نے فرمایاکہ بیت اللہ کی کوئی چیز چھوڑے جانے کے قابل نہیں ہے، تو حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا سنت یہی ہے کہ حجر اسود کے علوہ اور کسی کا بوسہ نہ لیا جائے۔ ( دیکھئے شیخ ابن مفلح کی کتاب الاداب الشرعہ ج 2، ص 273)
اسی طرح حضرت سعید بن مسیّب رضی اللہ عنہ نے ایک آدمی کو دیکھا کہ وہ فجر کی نماز کے بعد کثرت سے رکوع اور سجدے کر رہا ہے آپ نے اس کو منع فرمایا تو اس نے کہا اے ابو محمد ایعذبنی اللہ علی الصلاہ کیا اللہ تعالٰی نماز پر بھی مجھے عذاب دے گا، فرمایا نہیں لیکن خلاف سنت عمل پر عذاب دے گا۔ دیکھئے ( التمھید لا بن عبد البر20 / 104 مطبوع دار طیبہ بحوالہ کتاب الاداب لفواد بن عبد العزیز السلہوب) سعودی عرب کے افتاء کی دوئمی کمیٹی کا بھی یہی فتوی ہے کہ قرآن چومنے کی مشروعیت پر کوئی دلیل نہیں ہے اللہ نے قرآن کو پڑھنے اس کو تدبر کرنے اور اس پر عمل کرنے کے لئے نازل کیا ہے۔ دیکھئے ( فتوی 8852، 2/273)
بنت واحد
06-10-11, 05:40 AM
http://i425.photobucket.com/albums/pp335/sweety_05_2008/borders/16-1.png

چھٹا باب: اسباب نزول

http://i425.photobucket.com/albums/pp335/sweety_05_2008/borders/16-1.png



سوال213:قرآن مجید کی وہ کونسی سورت ہے جو یہود بنی نضیر کے بارے میں نازل ہوئی ہے؟
جواب: سورہ حشر 28 پارہ۔

سوال214: اس صحابیہ کا نام بتائیے جن کی شان میں قرآن مجید کی آیتیں اتریں؟
جواب:حضرت خولہ بنت مالک بن ثعلبہ رضی اللہ عنہا۔ ( سنن ابی داؤد کتاب الطلاق ، باب فی اظہار)

سوال215: آیت کریمہ{ ما کان للنبی والذین امنوا ان یستغفروا للمشر کین ولو کانوا اولی قربی من بعد ما تبینلھم انھم اصحب الجحیم}(سورہ توبہ آیت:113)[ پیغمبر کو اور دوسرے مسلمانوں کو جائز نہیں کہ مشرکین کے لئے مغفرت کی دعا مانگیں اگرچہ وہ رشتہ دار ہی ہوں اس امر کے ظاہر ہو جانے کے بعدکہ یہ لوگ دوزخی ہیں ]کا شان نزول کیا ہے؟
جواب:اس آیت کریمہ کا شان نزول یہ ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا ابو طالب کو مرتے وقت فرمایا تھا کہ میں اس وقت تک آپ کے لئے استغفار کرتا رہوں گا جب تک اللہ تعالٰی کی طرف سے مجھے روک نہیں دیا جاتا۔ ( صحیح بخاری، کتاب التفسیر )

سوال216:آیت {انک لا تھدی من احببت}[آپ جسے چاہیں ہدایت نہیں دے سکتے ](سورہ قصص آیت :56) کس کے بارے میں اتری ہے ؟
جواب:نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عم بزرگوارابو طالب کے بارے میں اتری۔ ( صحیح بخاری کتاب التفسیر، صحیح مسلم کتاب الایمان باب قول لالہ اللہ )

سوال217:جہاد کے متعلق سب سے پہلے نازل ہونے والی آیت کونسی ہے؟
جواب:جہاد کے متعلق سب سے پہلے نازل ہونے والی آیت یہ ہے{اذن للذی یقاتلون بانھم ظلموا وان اللہ علی نصر ھم لقدیر}( سورہ حج آیت:39) [جن مسلمانوں سے کافر جنگ کر رہے ہیں انہیںبھی مقابلے کی اجازت دی جاتی ہے کیوں کہ وہ مظلوم ہیں]

سوال218:قرآن مجید کی یہ آیت{الم ترالی الذی قولوا قوما غضب اللہ علیھم ماھم منکم ولا منھم و یحلفون علی الکذب وھم یعلمون}( سورہ مجادلہ آیت:14) [کیا تو نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنہوں نے اس قوم سے دوستی کی جن پر اللہ غضبناک ہو چکاہے نہ یہ منافق تمہارے ہی ہیں نہ ان کے ہیں باوجود علم کے پھر بھی قسمیں کھائے جا رہے ہیں ] کن کے بارے میں اتری ہے؟
جواب:ان منافقین کے بارے میں نازل ہوئی جو یہود و نصاری سے دوستی کرتے تھے، اور ہر بد بخت مسلمان پر صادق آتی ہے جو کافروں سے ہمدردی رکھے اور مسلمانوں سے دشمنی۔

سوال219: آیت کریمہ{ذق انک انت العزیز الکریم}[اس سے کہا جائے گاچکھ تو ذی عزت اور بڑے اکرام والا تھا] ( سورہ دخان آیت:49) کس کے بارے میں اتری ہے؟
جواب:یہ آیت مشہور دشمن اسلام ابو جہل عمرو بن ہشام کے بارے میں اتری ہے۔

سوال220:فرمان الٰہی{وقالو الولا نزل ھذا القرآن ولی رجل من القریتین عظیم}( سورہ زخرف آیت:31) [اور کہنے لگے یہ قرآن ان دونوں بستیوں میں سے کسی بڑے آدمی پر کیوں نہ نازل کیا گیا ]یہ آیت کس کے بارے میں اتری ہے اور قریتین سے کون کون سی بستیاں مراد ہیں؟
جواب: یہ آیت ولید بن مغیرہ اور عروہ بن مسعود ثقفی کے بارے میں نازل ہوئی، اور قریتین سے مراد مکہ اور طائف ہے۔

سوال221:قرآن مجید کی یہ آیت{ومن الناس من یقول امنا باللہ فاذا اوذی فی اللہ جعل فتنۃ الناس کعذاب اللہ ولئن جاء نصر من ربک لیقولن انا معکم اولیس اللہ باعلم بما فی صدورالعلمین }(سورہ عنکبوت آیت:10)[اور بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو زبانی کہتے ہیں کہ ہم اللہ پر ایمان لائے ہیں لیکن جب اللہ کی راہ میں کوئی مشکل آن پڑتی ہیں تو لوگوں کو ایذاء دہی کو اللہ تعالٰی کے عذاب کی طرح بنا لیتے ہیں ہاں اگر اللہ کی مدد آ جائے تو پکار اٹھتے ہیں کہ ہم توتمہارے ساتھی ہی ہیں کیا دنیا جہان کے سینوں میں جو کچھ ہے اس سے اللہ تعالٰی دانا نہیں ہے ] کن لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے؟
جواب:ضحاک کہتے ہیںکہ یہ آیت کریمہ مکہ مکرمہ میں ان منافقوں کے بارے میں نازل ہوئی تھی جو دل سے مسلمان نہیں ہوئے تھے جب انہیں مشرکین کی جانب سے تکلیف پہنچی تو دوبارہ مشرک بن گئے۔

سوال222:وہ کون صحابی ہیں جن کے بارے میں قرآن مجید کی یہ آیت {یاایھا الذی امنوا لاتتخذوا عدوی وعدو کم اولیاء تلقون الیھم مودۃ}( سورہ ممتحنہ آیت:1)[اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو!اور (خود) اپنے دشمنوں کو اپنا دوست نہ بناؤ تم تو دوستی سے ان کی طرف پیغام بھیجتے ہو] نازل ہوئی ہے؟
جواب:صحابی رسول حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔

سوال223:سورہ اخلاص کا سبب نزول کیا ہے؟
جواب:مشرکین مکہ نے صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا اے محمد اپنے رب کا نسب نامہ اور اس کا وصف بیان کرو تو یہ سورت نازل ہوئی۔(سنن ترمذی، ابواب تفسیر القرآن، علامہ البانی رحمۃ اللہ نے اس حدیث کو حسن کہا ہے دیکھئےصحیح سنن الترمذی حدیث:2680)
بنت واحد
08-10-11, 05:38 AM
http://i425.photobucket.com/albums/pp335/sweety_05_2008/borders/16-1.png
ساتوں باب: احوال امم سابقہ
http://i425.photobucket.com/albums/pp335/sweety_05_2008/borders/16-1.png

سوال224:سورہ قاف میں اصحاب الایکہ ( ایکہ والے ) آیا ہوا ہے اس سے کون لوگ مراد ہیں اور ایکہ کیا ہے یہ کس جگہ ہے؟
جواب:اصحاب الایکہ سے حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم اور بستی مدین کے اطراف کے باشندے مراد ہیں، ایکہ جنگل کو کہتے ہیں اور یہ جگہ تبوک میں واقع ہے اور تبوک مدینہ منورہ سے تقریبا 600 کلو میٹر شمال میں ہے

سوال225:اصحاب الرس ( کنوئیں والے) سے کیا مراد ہے؟
جواب: اس کی تعین میں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے، علامہ ابن جریر طبری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس سے مراد اصحاب الاخدود ہیں جن کا تذکرہ سورۃ البروج میں آیا ہوا ہے۔ ( بحوالہ ابن کثیر و فتح القدیر)
اگر اس سے مراد اصحاب الاخدود لیا جائے جیسا کہ ابن جریر طبری رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے تو پھر یہ علاقہ نجران میں واقع ہے اور نجران سعودی عرب کا ایک شہر ہے جو حدود یمن کی طرف واقع ہے۔ (نحوالہ اطلس القرآن للد کتور شوقی خلیل)
اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ الرس ایک قوم تھی جس نے اپنے نبی کو جھٹلایا اور اسے کنوئیں میں گھسیڑ دیا اور یہ علاقہ آذر بیجان اور آرمینیا کے درمیان واقع ہے۔ ( بحوالہ اطلس القرآن للد کتور، شوقی ابو خلیل)

سوال226:اصحاب الحجر ( حجر والے) سے کیا مراد ہے؟
جواب: حضرت صالحح ولیہ السلام کی ثمود مراد ہے حجر یہ ان کی بستی کا نام تھا یہ بستی مدینہ اور تبوک کے درمیان تھی، یہ جگہ ابھی مدائن صالح کے نام سے مشہور ہے اس کا قدیم نام الحجر ہے یہی وہ وجہ ہے جہاں آج سے چھ ہزار سال پہلے قوم ثمود آباد تھی،یہ خیبر سے تقریبا 115 میل شمال مغرب میں واقع ہے، سید ابو الاعلی مودودی کی رو داد سفر ( سفر نامہ ارض القرآن ) میں لکھا ہے العلاء سے مدائن صالح تقریبا 30 میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ ( بحوالہ اطلس القرآن )

سوال227:قوم تبع سے کیا مراد ہے؟
جواب: تبع سے مراد قوم سبا ہے سبا میں حمیر قبیلہ تھا یہ اپنے بادشاہ کو تبع کہتے تھے، جیسے روم کا بادشاہ کو قیصر،فارس کے بادشاہ کو کسری، مصر کے حکمران کو فرعون، اور حبشہ کے فرماں روا کو نجاشی، کہا جاتا تھا، اہل تاریخ کا اتفاق ہے کہ تبابعہ میں سے بعض تبع کو بڑا عروج حاصل ہوا، حتی کے بعض مورخین نے یہاں تک کہہ دیا کہ وہ ملکوں کو فتح کرتے ہوئے سمرقند تک پہنچ گیا، اس طرح اور بھی کئی عظیم بادشاہ اس قوم میں گزرے اور اپنے وقت کی یہ ایک عظیم قوم تھی جو قوت و طاقت، شوکت و حشمت اور فراغت و خوش حالی میں ممتاز تھی لیکن جب اس قوم نے بھی پیغمبروں کی تکذیب کی تو اسے تہس نہس کر کے رکھدیا گیا۔ ( بحوالہ قصص القرآن مولانا حفظ الرحمٰن میو ہاروی)

سوال228:اصحاب الکہف و الرقیم سے کیا مراد ہے؟
جواب:کہف سے مراد پہاڑ کے اند وسیع غار ہے اور رقیم سے مراد تختی ہے جس میں مشہور قول کے مطابق اصحاب الکہف کے نام لکھے گئے تھے، اس وقت ایک بت پرست بادشاہ دقیانوس روم کا حکمران تھا اصحاب کہف کا شہر طرسوس ان دنوں حکومت روم کا ماتحت تھا وہ بادشاہ ہر مومن کو قتل کر دیتا تھاان نوجوانوں نے جب یہ صورت حال دیکھی تو بہت فکر مند ہوئے اور بھاگ کر ایک چرواہے اور اس کے کتے سمیت طرسوس کے قریب ایک غار میں پناہ حاصل کر لیاللہ تعالٰی نے ان پر نیند مسلط کر دی حتی کہ وہ تین سو شمسی سال تک سوتے رہے جب کہ ان کو اس بات کا احساس و شعور تک نہ تھا اس مدت کو اگر قمری سالوں میں تبدیل کیا جائے تو تین سو سال بن جاتے ہیں، پھر اللہ نے ان کو جگا دیا انہوں نے سمجھا کہ وہ ایک آدھ دن سوئے ہونگے انہوں نے جب اپنے میں سے ایک کو کھانے کے لئے بھیجا تو اس نے سمجھا میں راستہ بھول گیا ہوں لوگوں نے اس کے دیے ہوئے سکوں پر تعجب کیا حتی کہ صورت حال واضح ہو گئی، اب سابقہ حالات بدل چکے تھے دقیانوس کے بت پرستی کا دور ختم ہو چکا تھا دین حق کا دور دورہ تھا، پھر اللہ تعالٰی نے اصحاب کہف کو اسی غار میں موت دے دی۔

سوال229: یہ غار کہاں ہے؟
جواب: بعض کے نزدیک اصحاب کہف کا یہ غار بتراء ( اردن) کے پاس ہے لیکن اس کی کوئی تاریخی سند نہیں ملتی ہے البتہ اب زیادہ تر ایشیائے کوچک ( ترکی) کے شہر افسوس یا افسس پر اتفاق پایا جاتا ہے۔ دیکھئے دکتور شوقی ابو خلیل کی کتاب ( اطلس القرآن مطبوع مکتبہ دارالسلام الریاض)
علامہ مودودی نے بھی تفہیم القرآن جلد سوم میں ترکی کے اسی شہر کا تعین فرمایا ہے۔

سوال230:کس سورت میں ذوالقرنین کا تذکرہ آیا ہوا ہے؟
جواب: سورہ کہف از آیت 83 تا آیت 98۔

سوال231: کس سورت میں ہابیل اور قابیل کا قصہ آیا ہوا ہے؟
جواب: سورہ مائدہ وز آیت 27 تا آیت 31۔

سوال232:قوم عاد کی طرف اللہ تعالٰی نے کس کو نبی بنا کر بھیجا؟
جواب: ہود علیہ السلام کو، فرمان باری تعالٰی ہے{والی عاد اخاھم ھودا}( سورہ اعراف آیت:25)

سوال233:قوم ثمود کی طرف کس کو اللہ تعالٰی نے نبی بنا کر بھیجا؟
جواب:صالح علیہ السلام کو، فرمان الٰہی ہے {والی ثمود اخاتھم صالحا}( سورہ اعراف آیت:73)

سوال234: قوم مدین کی طرف کس کو اللہ تعالٰی نے نبی بنا کر بھیجا؟
جواب:حضرت شعیب علیہ السلام کو{والی مدین اخاھم شعیبا}( سورہ اعراف آیت :85)

سوال235:بنی اسرائیل کی طرف اللہ نے کس کو پیغمبر بنا کر بھیجا؟
جواب: حضرت موسی علیہ السلام کو{واتینا موسی الکتب و جعلنہ ھدی لبنی اسرائیل الا تتخذوا من دونی و کیلا}[ہم نے موسی کو کتاب دی اور اسے بنی اسرائیل کے لئے ہدایت بنا دیا کہ تم میرے سوا کسی کو اپنا کاد ساز نہ بنانا] (سورہ اسراء آیت :2)
بنت واحد
09-10-11, 05:28 AM
سوال236: حضرت موسی علیہ السلام کو کیا کیا معجزات و نشانیاں دی گئی تھیں؟
جواب:حضرت موسی علیہ السلام کو درج ذیل معجزات و نشانیاں دی گئی:
(1) عصا (2) یدبیضا ( 3)سنین [قحط] (4) نقص ثمرات[پھلوں کانقصان] (5) طوفان، طوفان سے سیلاب اور کثرت بارش سے ہر چیز غرق ہوگئی یا کثرت اموات مراد ہے جس سے ہر گھر میں ماتم برپا ہوگیا۔ (6) جراد، ٹڈی دل کا حملہ فصلوں کی ویرانی کے لئے بہت مشہور ہے یہ ٹڈیاں ان کی فصلوں اور غلوں کو کھا کر چٹ کر جاتیں۔ (7)قمل، اس سے مراد جوں ہیں جو انسان کے جسم،کپڑوں اور بالوں میں ہو جاتی ہیں یا گھن کا کیڑا ہے جو غلے میں لگ جاتا ہے تو اس کے بیشتر حصے کو ختم کر دیتا ہے۔ (8)ضفاوع (مینڈک) جو پانی وغیرہ میں ہوتا ہے یہ مینڈک ان کے کھانوں اور بستروں میں ہر جگہ اور ہر طرف مینڈک ہی مینڈک ہو گئے جس سے ان کا کھانا پینا اور سونا حرام ہو گیا۔ (9) دم ( خون) جس سے مراد ہے پانی کا خون بن جانا یوں پانی کا پینا ان کے لئے ناممکن ہو گیا (10)فلق بحر ( سمندر کا پھٹ جانا ) (11) انفجارعیون ( پتھر سے چشموں کا بہہ پڑنا ) (12) من و سلوی کا اترنا۔ (13) غمام ( بادلوں کا سایہ) (14) نتق جبل ( طور کے ایک حصہ کا اپنی جگہ سے اکھڑ کر بنی اسرائیل کے سر پر آ جانا) (15) نزول تورات۔

سوال237:حضرت عیسی علیہ السلام کو کیا کیا معجزات و نشانیاں دی گئیں؟
جواب:حضرت عیسی علیہ السلام کو درج ذیل معجزات و نشانیاں دی گئیں:
(1)نزول انجیل (2) آپ کا ہاتھ پھیرنے کی وجہ سے بیمار کا باذن اللہ شفایاب ہونا۔(3) حضرت عیسی علیہ السلام کا گہوارے میں بات چیت کرنا (4) اللہ کے حکم سے مردہ کو زندہ کر دینا (5) اللہ کے حکم سے مادر زاد اندھے اور کوڑی کو اچھا کر دینا۔ (6)مٹی سے پرندے بنا کر اس میں پھنک دیتے تھے اور اللہ کے حکم سے اس میں روح پڑ جاتی تھی۔ (7) آپ یہ بھی بتا دیا کرتےتھے کہ کس نے کیا کھایا اور خرچ کیا اور کیا گھر میں ذخیرہ محفوظ کر رکھا ہے۔ (8) نزول مائدہ ( دسترخوان نعمت نازل کر دینا) تاکہ روزی کمانے کی فکر سے آزاد ہو جائیں۔

سوال238:حضرت صالح علیہ السلام کو کون سا معجزہ دیا گیا؟
جواب: ناقۃ یعنی اونٹنی

سوال239:گزشتہ قومیں ( قوم نوح، قوم ہود، قوم صالح، قوم لوط وغیرہ) جنہوں نے نبیوں کی تکذیب کی کیسے ہلاک و برباد ہوئیں؟
جواب:(1) قوم نوح کو طوفان باد و باراں میں غرق کر کے تباہ و برباد کر دیا گیا۔
(2) قوم ہود کو تیز و تند ہواؤں کے ذریعہ تہ بالا کر دیا گیا جو ہوائیں ان پر آٹھ دن اور سات راتیں مسلط رہیں۔
(3)قوم صالح کو ایک ہیبتناک آواز کے ذریہ ہلاک کر دیا گیاجس سے ان کے کلیجے پھٹ گئے۔
(4) قوم لوط کو ایک ہیبتناک چیخ نے تہ د بالا کر دیااور پھر آبادی کا تختہ اٹھا کر الٹ دیا گیا اور اوپر سے پتھروں کی بارش نے ان کا نام و نشان تک مٹا دیا اور وہی ہوا جو گزشتہ قوم کی نافرمانی اور سر کشی کا انجام ہو چکا تھا۔
(5) قوم شعیب کو دو قسم کے عذاب نے آ گھیرا ایک زلزلہ کا عذاب اور دوسرا آگ کی بارش کا عذاب یعنی جب وہ اپنے گھروں میں آرام کر رہے تھے تو یک بیک ہولناک زلزلہ آیا اور ابھی یہ ہولناکی ختم نہ ہوئی تھی کہ اوپر سے آگ برسنے لگی اور نتیجہ یہ نکلا کہ صبح دیکھنے والوں نے دیکھا کہ کل کے سر کش اور مغرور گھٹنوں کے بل اوندھے جھلسے ہوئے پڑے ہیں۔
(6) فرعون اور اس کی قوم کو دریا میں غرقاب کر کے ہلاک کیا گیا۔
( دیکھئے مولانا حفط الرحمٰن سیو ہاروی کی کتاب قصص القرآن )

سوال240:حضرت ابراہیم کے والد کا کیا نام تھا اور کیا وہ مومن تھا یا کافر دلیل سے ثابت کریں؟
جواب:حضرت ابراہیم کے والد کا نام آزر تھا اور وہ کافر تھا اور اس کی دلیل
اللہ تعالٰی کا فرمان ہے{واذ قال ابراہیم لابیہ آزر اتتخذ اصناما الھۃ انی اراک و قومک فی ضلل مبین}(سورہ انعام آیت:74)

سوال241:حضرت نوح علیہ السلام اپنی قوم کو کتنے سال تک دعوت و تبلیغ کرتے رہے اور کیا ان کی اتباع زیادہ لوگوں نے کی یا کم لوگوں نے؟
جواب:حضرت نوح علیہ السلام اپنی قوم کو ساڑھے نو سو سال تک دعوت و تبلیغ کرتے رہے اوران کی اتباع بہت کم لوگوں نےکی۔

سوال242:اسباط کن کو کہا جاتا ہے؟
جواب:سبط کی جمع اسباط ہے، اسباط یعقوب علیہ السلام کی اولاد کو کہتے ہیں جو بارہ تھےجن میں سے ہر ایک کی نسل میں بہت سے انسان ہوئے، بنی اسمعیل کو قبائل کہتے ہیں اور بنی اسرائیل کو اسباط۔

سوال243:حضرت آدم علیہ السلام کا نام قرآن مجید میں کتنی بار آیا ہوا ہے؟
جواب: پچیس بار آیا ہوا ہے۔

حضرت آدم و حواء علیہما السلام کہاں اتارے گئے؟
جواب:علامہ ابن سعد رحمۃ اللہ علیہ اور ابن عساکر رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے نقل کیا ہے کہ حضرت آدم کو ہندستان میں اور حضرت حواء علیہ السلام کو جدہ کے مقام پر اتارا گیا پھر ان کی باہمی ملاقات مزدلفہ کے مقام پر ہوئی۔ دیکھئے ( کتاب اطلس القرآن للدکتور شوقی خلیل)

سوال245:حضرت نوح علیہ السلام کا ذکر قرآن مجید میں کتنی مرتبہ ذکر آیا ہوا ہے؟
جواب:حضرت نوح علیہ السلام کا ذکر قرآن مجید میں 43 مقامات پر آیا ہوا ہے۔

سوال246:حضرت ہود علیہ السلام کا تذکرہ قرآن مجید میں کتنی بار آیا ہوا ہے؟
جواب:حضرت ہود علیہ السلام کا تذکرہ قرآن مجید میں سات مقامات پر آیا ہوا ہے۔ملاحظہ فرمایئے سورہ اعراف، شعراء سورہ ہود۔

سوال247:حضرت ابراہیم علیہ السلام کا نام نامی قرآن مجید میں کتنی مرتبہ آیا ہوا ہے؟
جواب:69 دفعہ آیا ہوا ہے۔
بنت واحد
11-10-11, 06:53 AM
http://i425.photobucket.com/albums/pp335/sweety_05_2008/borders/16-1.png

آٹھواں باب: خدمت قرآن و علوم قرآن

http://i425.photobucket.com/albums/pp335/sweety_05_2008/borders/16-1.png

سوال248:وہ کون صحابی ہیں جن کو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے تدوین قرآن کا حکم دیا تھا؟
جواب:حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ۔

سوال249: قرآن کریم کے الفاظ پرسب سے پہلے کس نے نقطے لگائے؟
جواب:بعض نے کہا ہے سب سے پہلے ابوالاسودولی رحمۃاللہ علیہ نے نقطہ لگانے کا کام سر انجام دیا اور بعض نے کہا کہ کوفہ کے گورنر زیاد بن ابی سفیان نے ان سے یہ کام کروایا۔

سوال250:قرآن کریم پر سب سے پہلے کس نے حرکات ( زیر زبر پیش) لگائے؟
جواب: بعض نے کہا ہے کہ سب سے پہلے ابو الاسوددولی نے حرکات لگائے اور بعض کا کہنا ہے کہ حجاج بن یوسف نے حرکات لگائے۔

سوال251:وہ چار صحابی کون ہیں جن کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ان چاروں سے قرآن سیکھو؟
جواب:وہ چار صحابی یہ ہیں:
(1) حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ (2) حضرت سالم بن معقل رضی اللہ عنہ (3) حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ (4) حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ (صحیح بخاری: کتاب فضائل الصحابہ)

سوال252:چند مفسرین صحابہ کے نام بتائے جو علم تفسیر میں مشہور و معروف ہیں؟
جواب:(1) خلفائے اربعہ رضی اللہ عنھم اجمعین(5) حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ (6) حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما (7) حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ (8) حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ (9) حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ (10) حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ ( الاتقان فی علوم القرآن ج،2 طبقات المفسرین)

سوال253:سات مشہور قراء کے نام بتایئے جن کے نام سے سات قرآئتیں مشہور ہیں؟
جواب:سات مشہور قراء کے نام یہ ہیں؟
(1) ابن عامر الدمشقی رحمۃ اللہ علیہ متوفی 118 ہجری۔
(2) ابن کثیر المکی رحمۃ اللہ علیہ متوفی 120 ہجری۔
(3) عاصم بن ابی الخجود الکوفی رحمۃ اللہ علیہ متوفی 127 ہجری۔
(4) ابو عمرو بن العلاء البصری رحمۃ اللہ علیہ متوفی 154 ہجری۔
(5) حمزہ بن حبیب الزیات الکوفی رحمۃ اللہ متوفی 156 ہجری۔
(6) نافع المدنی رحمۃ اللہ علیہ متوفی 169 ہجری۔
(7) الکسائی ابو الحسن علی بن حمزہ رحمۃاللہ علیہ متوفی189 ہجری۔

سوال254:شیخ محمد اشقر نے علامہ شوکانی رحمۃ اللہ علیہ کی تفسیر قرآن المسمی ( فتح القدیر) کی تلخیص کی ہے، اس کا کیا نام ہے؟
جواب:اس تلخیڈ کا نام ہے زبدۃ التفسیر فی فتح القدیر۔

سوال255:تفسیری احکام سے متعلق تین کتابیں بیان کیجئے؟
جواب:(1) احکام القرآن للجصاص(2) احکام القرآن لابن العربی (3) الجامع لاحکام القرآن للقرطبی۔

سوال256:کچھ معاصر تفسیروں کے نام بتایئے؟
جواب:(1) تیسیر الکریم الرحمٰن فی تفسیر کلام المنان جس کے مولف کا نام شیخ عبد الرحمٰن بن ناصر السعدی رحمۃ اللہ علیہ ہے۔
(2) الجواھرفی تفسیر القرآن کے مولف کا نام شیخ طنطاعی جوہری ہے۔
(3)تفسیر المنار کے مولف کا نام سید محمد رشید رضا رحمۃ اللہ علیہ ہے۔
(4) فی ظلال القرآن کے مولف کا نام سید قطب رحمۃ اللہ علیہ ہے۔
(5) اضوا ء البیان کے مولف کا نام شیخ محمد الشنقیطی رحمۃ اللہ علیہ ہے۔

سوال257:نسخ کی لغوی اور اصطلاحی تعریف بیان کیجئے؟
جواب:نسخ کے لغوی معنی نقل کرنے کے ہیں لیکن شریعی اصطلاح میں ایک حکم کو بدل کر دوسرا حکم نازل کرنے کے ہیں، یہ نسخ اللہ کی طرف سے ہوا ہے جیسے حضرت آدم علیہ السلام کے زمانے میں سگے بہن بھائیوں کا آپس میں نکاح جائز تھا بعد میں اسے حرام کر دیا گیا اسی طرح قرآن میں بھی اللہ تعالٰی نے بعض احکام منسوخ فرمائے اور ان کی جگہ نیا حکم نازل فرمایا، جمہور علماء امت کی رائے ہے کہ قرآن و حدیث میں نسخ واقع ہوا ہے۔ (تفسیر احسن البیان للشیخ صلاح الدین یوسف لاہوری اور ڈاکٹر لقمان سلفی حفظہ اللہ کی تفسیر تیسیر الرحمٰن لبیان القرآن )

سوال258: نسخ فی القرآن کی کتنی قسمیں ہیں؟
جواب:تین قسمیں ہیں:
(1) تلاوت منسوخ ہو حکم باقی ہو (2) حکم منسوخ ہو تلاوت باقی ہو(3) تلاوت اور حکم دونوں منسوخ ہوں۔

سوال259:محکمات اور متشابہات سے کیا مراد ہے؟
جواب:محکمات ان آیات کو کہتے ہیں جن میں اوامرونوہی، احکام و مسائل اور قصص و حکایات ہیں جن کا مفہوم واضح اور اٹل ہے اور ان کے سمجھنے میں کسی کو اشکال پیش نہیں آتا ۔
متشابہات ان آیات کو کہتے ہیں جو محکمات کے بالکل برعکس ہوں۔
بنت واحد
11-10-11, 06:54 AM
سوال260:درج ذیل تفسیروں کے مولف کا نام بتایئے؟
جواب: (1) جامع البیاب فی تفسیر القرآن کے مولف کا نام ابو جعفر محمد بن جریر طبری رحمۃ اللہ علیہ ہے۔
(2) معالم التنزیل کے مولف کا نام ابو محمد حسین بن مسعود بن محمد فراء بغوی رحمۃ اللہ علیہ ہے۔
(3) تفسیر القرآن العظیم کے مولف کا نام عماد الدین ابو الفداء حافظ اسماعیل بن عمرو بن کثیر دمشقی رحمۃ اللہ علیہ ہے۔
(4) تفسیر فتح التقدیر کے مولف کا نام قاضی محمد بن علی بن شوکانی رحمۃ اللہ علیہ ہے۔
(5)الدرالمنثور فی التفسیر بالماثور کے مولف کے نام علامہ جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ ہے۔

سوال261:الاتقان فی یوم القرآن کے مولف کا نام بتایئے؟
جواب:الاتقان فی علوم القرآن کے مولف کا نام علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ ہے۔

سوال262:مباحث فی علوم القرآن کے مولف کا نام بتایئے؟
جواب:مباحث فی علوم القرآن کے مولف کا نام شیخ مناع القطان ہے۔

سوال263:ان مشہور علماء کا نام بتایئے جن سے اسرئیلیات مروی ہیں؟
جواب:(1) کعب الاحبار (2) وہب بن منبہ (3) عبدالملک بن عبدالعزیزبن جریج (4) عبداللہ بن سلام۔

سوال264:اشاعت قرآن کا عظیم مرکز کہاں اور اس کا کیا نام ہے؟
جواب:اشاعت قرآن کا عظیم مرکز مدینہ منورہ میں ہے اور اس کا نام مجمع الملک فہد لطباعہ المصحف الشریف ( شاہ فہد قرآن کمپلیکس) ہے۔

سوال265:اس کمپلیکس کا قیام کب عمل میں آیا اور اس کا مقصد کیا ہے؟
جواب:1982ء میں اس کمپلیکس کا قیام عمل میں آیا جس کا مقصد قرآن کریم معری (سادہ) اور مع تراجم ایک کثیر تعداد میں چھاپنا اور دنیا میں مسلم ممالک کے علاوہ (جن میں مسلمان بستے ہیں ) مفت تقسیم کرنا اور قرآن کریم اور اس کی تعلیمات کو عام کرنا ہے۔

سوال266:اس کمپلیکس نے اب تک کتنی زبانوں میں قرآن کریم شائع کیا ہے؟
جواب:اس کمپلیکس نے اب تک چالیس (40) زبانوں میں قرآن کریم شائع کیا ہے۔

سوال267:برصغیر ( ہندو پاک) میں قرآن کریم کا سب سے پہلے ترجمہ کس نے کیا؟
جواب:سب سے پہلے شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃاللہ علیہ نے قرآن مجید کا ترجمہ فارسی میں کیا۔

سوال268:ہر سال بین الاقوامی سطح پر حسن و تجوید کا مقابلہ کہاں منعقد ہوتا ہے؟
جواب:یہ مقابلہ سعودی عرب کی وزارت مذہبی امور کی نگرانی میں ہر سال مکہ المکرمہ میں منعقد ہوتا ہے۔

سوال269:ہجر قرآن (قرآن چھوڑ دینے کی) چند ایک شکلیں تحریر کریں؟
جواب:علامہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے ہجر قرآن کی چند ایک شکلیں بیان کی ہیں جن کا تذکرہ ذیل میں کیا جاتا ہے:
(1) قرآن سننا چھوڑ دیا جائے اس پر ایمان نہ لایا جائے اسے بغور نہ سنا جائے۔
(2) قرآن پڑھنے اور اس پر عمل رکھنے کے باوجود اس پر عمل نہ کیا جائے، قرآن کے حلال اور قرآن کے حرام کے پاس وقوف نہ کیا جائے۔
(3) دین کے اصول و فروع میں قرآن کے ذریعہ فیصلہ کرنا چھوڑ دیا جائے اور نہ ہی اس کی طرف فیصلہ لے کر جایا جائے۔
(4)قرآن میں غوروفکر کرنا اور اسے سمجھنا چھوڑ دیا جائے۔
(5) قرآن کے ذریعہ قلبی اور بدنی امراض کے لئے شفا حاصل کرنا چھوڑ دیا جائے۔
سوال270:قرآن کریم کے تین خصائص بیان کیجئے؟
جواب:(1) قرآن کریم کا اعجاز اور اس کے ذریعہ لوگوں کو چیلنج (2) قرآن کے ہر حرف پڑھنے پر دس نیکی(3) قرآن کریم یاد کرنے اور پڑھنے میں آسانی۔

سوال271:ایک ہی واقعہ کو قرآن کریم کے مختلف مقامات پر دہرائے جانے کی کیا حکمت ہے؟
جواب:چند ایک حکمتیں ہیں:
(1)قرآن کی بلاغت بیان کرنا مقصود ہے (2)ایک ہی معنی و مفہوم کو مختلف سورتوں میں لا کر قرآن کے اعجاز کو بیان کرنا ہے اور یہ دلیل ہے کہ قرآن منتہی درجہ کا اعجاز ہے (3) ایک ہی واقعہ کو بار بار اس لئے دہرایا گیا ہے تاکہ لوگوں دل و دماغ میں ثبت ہو جائے۔

سوال272:قرآن کریم میں جو قصے بیان کئے گئے ہیں اس کے کیا فائدے ہیں؟
جواب:(1) اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو قوم کی طرف سے پہنچنے والی تکلیفوں پر تسلی دینا اور صبر دلانا۔
(2) جو حادثات و واقعات ہو چکے ہیں اس سے درس و عبرت حاصل کرنا۔
(3) توحید کا اثبات اور انبیاء سابقین کی تصدیق۔
(4) آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کے دلوں کو قرار پہنچانا۔
بنت واحد
11-10-11, 02:21 PM
http://i425.photobucket.com/albums/pp335/sweety_05_2008/borders/16-1.png

نواں باب: حقوق قرآن

http://i425.photobucket.com/albums/pp335/sweety_05_2008/borders/16-1.png


سوال273:قرآن مجید کے مسلمانوں پر کیا حقوق ہیں چند ایک کا تذکرہ کیجئے؟
قرآن مجید کے درج ذیل حقوق ہیں:
(1) قرآن مجید کا پہلا حق یہ ہےکہ قرآن مجید پر ایمان لایا جائے (2) دوسرا حق یہ ہے کہ قرآن مجید کو پڑھا جائے (3) تیسرا حق یہ ہے کہ قرآن مجید کو سمجھا جائے (4) قرآن مجید کا چوتھا حق یہ ہے کہ قرآن مجید پر عمل کیا جائے (5) قرآن مجید کو آگر پہنچایا جائے یعنی اس کی تعلیم کو عام کیا جائے (6)قرآن مجید کے نظام کو اپنی ذات پر، خاندان پر، شہر پر، ملک پر اور ساری دنیا میں نافذ کیا جائے۔

سوال274:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر سال رمضان میں کتنی مرتبہ جبرئیل امین کے ساتھ قرآن کا دور کیا کرتے تھے؟
جواب:آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر سال ماہ رمضان میں ایک مرتبہ جبرئیل علیہ السلام کے ساتھ قرآن کریم کا دور کیا کرتے تھے البتہ جس سال آپ کی وفات ہوئی اس سال آپ نے دو مرتبہ دور فرمایا۔ ( صحیح بخاری کتاب فضائل القرآن، باب کان جبریل یعرض القرآن علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم)

سوال275:تلاوت قرآن کے چند ایک آداب لکھیئے؟
جواب:تلاوت قرآن کے درج ذیل آداب ہیں جن کا مدنظر رکھنا ضروری ہے تاکہ اللہ تعالٰی کے یہاں آپ کی قراءت مقبول اور باعث اجروثواب ہو:
(1) قرآن کی تلاوت خالصا لوجہ اللہ کی جائے (2) باوضو ہو کر قرآن کی تلاوت کی جائے (3)تلاوت قرآن کے وقت قبلہ رخ ہو کر بیٹھا جائے (4) قراءت سے بیشتر اعوذ باللہ من الشیطن الجیم پڑھے (5) سوارت کے شروع سے اگر قراءت کرنا ہو تو بسم اللہ پڑھ کر قراءت شروع کرے (6) قرآن ٹہر ٹہر کر پڑھے جلدی جلدی نہ پڑھے تاکہ حروف واضح ہو جائیں اور دل پر خوب اثر انداز ہو (7) تلاوت کے وقت خشوع، اطمینان اور وقار کا بحال رکھے (8) قرآن کی تجوید کے قواعد کے مطابق پڑھے (9) قرآن کو اچھی آواز کے ساتھ پڑھے (10) قرآن پڑھتے وقت ہر لفظ کی ادائیگی کا حق ادا کرے حتی کے لفظ پورا ہونے پر کلام ختم ہو جائے (11) قرآن کا احتارم کرے نہ اسے زمین پر رکھے نہ اس پر کوئی چیز رکھے نہ ہی اس کو کسی کی طرف پھینک کر بڑھائے (12) قرآن پڑھتے وقت تدبر و تفکر کیا جائے (13) تلاوت قرآن کرتے وقت مسواک کر لیا جائے۔

سوال276:قرآن مجید کیسے حفظ کیا جائے؟
جواب:قرآن مجید حفظ کرنا ایک مقدس عمل ہے اسی لئے علماء کرام نے حفظ قرآن کے لئے چند اصول و ضابطے بیان کئے ہیں اگر حفظ قرآن کا طالب ان اصول و ضابطے کو اپنا لے تو وہ باذن اللہ قرآن اور حامل قرآن کےلقب سے ملقب ہو سکتا ہے، یہ اصول و ضابطے حقیقت میں ان چند کبار حفاظ کے تجربوں کا خلاصہ ہے جسے آپ کے سامنے ذیل کے سطور میں رکھا جا رہا ہے:
( 1) قرآن حفظ کرنے سے پہلے اپنی نیت خالص اللہ کے لئے کیجئے کہ حفظ قرآن سے میرا مالک و مولی خوش ہو جائے کیونکہ جس نے ریا کاری اور شہرت کے لئے قرآن حفظ کیا وہ گنہگار ہے ایسے ایسے شخص کو سخت عذاب کی دھمکی سنائی گئی ہے اور ایسا شخص اجروثواب سے محروم رہے گا۔ (صحیح مسلم حدیث:1905)
(2) حفظ قرآن سے پہلے اپنا عزم پختہ کیجئے۔
(3) گناہ اور معصیت کے کاموں سے مکمل اجتناب کیجئے اس سے اللہ کی تائید و نصرت شامل حال رہے گی۔
(4)حفظ قرآن کے لئے ایک ہی طباعت والا مصحف (قرآن مجید) استعمال کیا جائے تاکہ حفظ کرنے والے کے ذہن میں صفحہ کا پورا نقشہ محفوظ رہے۔
(5) حفظ کے لئے ایسے استاد کا انتخاب کیا جائے جس کی اپنی منزل پختہ ہو۔
(6)حفظ قرآن کے لئے اوقات مقرر کیے جائیں پھر ان اوقات میں حفظ قرآن کا اہتمام کیا جائے،حفظ قرآن کے لئے فجر سے پہلے کا وقت یا فجر کے فورا بعد کا وقت اختیار کیا جائےکیونکہ یہ وقت حفظ قرآن کے لئے انتہائی مناسب ہےاس لئے کہ اس وقت سکوں کا سماں رہتا ہے۔
(7)حفظ قرآن کے لئے ضروری ہےکہ اپنی قراءت اور حروف کے مخارج درست کئے جائیں اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب کسی قاری قرآن کا ریکارڈ شدہ قرات سننے کا التزام کیا جائےیا کسی قاری قرآن یا ماہر حافظ سے براہ راست استفادہ کیا جائے، خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جو زبان کے معاملہ میں تمام عربوں سے زیادہ فصیح تھے پھر بھی جبریلامین علیہ السلام سے براہ راست سیکھتے اور اپنے صحابہ کو سکھاتے تھے اور یہ سلسلہ آج تک چلا آ رہا ہے۔
(8) حفظ قرآن کے لئے ضروری ہے کہ طالب علموں کو انعام کا لالچ دیا جائے کہ جو طالب علم جتنا جلدی حفظ کرے گا اسے اتنا اور اتنا انعام ملے گا۔
(9) حفظ کے لئے طالب علموں پر تشدد نہ کیا جائے۔
(10) عمر کے ابتدائی مرحلے میں قرآن حفظ کیا جائے جس کے لئے مناسب وقت سات سال سے پندرہ سال ہے کیونکہ اس عمر میں سہولت و آسانی کے ساتھ معلومات و محفوظات ذہن قبول کر لیتی ہے، اس لئے اکثر صحابہ جو قاری قرآن مشہور ہوئے انہوں نے اپنے بچپنے میں قرآن حفظ کر لیا تھا وہ خود فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت میری عمر دس سال تھی اور میں قرآن حفظ کر چکا تھا۔
(11) حسب استطاعت روزانہ سبق لیا جائے اور استاد کو سنایا جائے پختہ یاد نہ رہنے کی صورت میں وہی سبق پھر دوبارہ یاد کر لیا جائے۔
(12) حفظ شدہ سورتیں یا آیات بار بار دوہرائی جائیں ایسا کرنے سے اچھی طرح حفظ ہو جائے گا۔
(13) قرآن حفظ کر لینے کے بعد روزانہ ایک سیپارہ یا آدھا سیپارہ سنایا جائےتاکہ قرآن نہ بھول سکے۔
(14)آیات کا معنی و مفہوم سمجھنے سے حفظ کرنا آسان ہو جاتا ہے،اس کا طریقہ یہ ہے کہ قرآن حفظ کرنے والاان آیات کا ترجمہ و تفسیر پڑھے جن کو وہ یاد کرنا چاہتا ہے۔
(15) ہمیشہ اچھے حافظ قرآن کو قرآن سنایا جائے، ایسا کرنے سے حفظ مضبوط رہے گا۔

معزز ناظرین: آج ضرورت اس بات کی ہےکہ قرآن حکیم خود سیکھا جائے اور اسے دوسروں کو سکھایا جائے، اس کے معنی و مطالب کو سمجھا جائے، قرآن حکیم سے تمسک کیا جائے یعنی اس کے احکام پر مضبوطی سے عمل کیا جائے تاکہ انسان دین اور آخرت میں سرخرو ہو۔
وما توفیقی الا باللہ علیہ توکلت والیہ انیب، واسالاللہ سبحانہ و تعالٰی ان یجعل اعمالنا خالصۃ لوجہہ الکریم و صلی اللہ وسلم علی نبینا محمد وعلی آلہ و اصحابہ اجمعین۔
ابو عدنان محمد طیب بھواروی


Source of information is Urdu Mehafil Forum

0 comments:

Post a Comment