Tuesday 16 June 2015

ہمی معاشرہ بناتے ہیں۔

 ہمارا المیہ ہے۔ ملا کو فکر ہے کہ معاشرہ سیکولر ہو گیا ہے اور معاشرہ کو "ملا" فوبیا ہو گیا ہے۔ وہی ایک جیسا  انداز دونوں فریقین کا داد سمیٹںے اور اپنی روزی روٹی چلانے کا۔
ایک کافر کہتے نہیں تھکتا تو دوسرا دہشت گرد کہتے۔ پڑہے لکھے لوگوں کو ایسی بے ہودہ باتیں نہیں کرنی چاہییں۔ ویڈیو دیکھیں اور دیکھیں کیسے چمچہ لوگ ایک بےہودہ دلیل پہ ٹیبل پیٹ رہے ہیں۔
ملاں کا کام ہے ہمارے بچوں کو ا ب ت ث پڑہانا۔
جب بچہ بڑا ہو جائے تو اسکا نکاح پڑہانا۔
عید کی نماز اور بزرگ بوڑہوں کو نماز تراویح پڑہانا۔
کوئی بچہ مسجد میں شرارت کرے اور مسجد کے مہتمم ،سمجھدار بزرگ  جب اس بچے کو ڈانٹیں تو سمجھ دار بزرگ کی ہاں میں ہاں ملانا۔ کیونکہ عید پہ پیسے بزرگ نے دینے ہیں۔
اور محلے میں کسی کے ڈاکٹر ، انجینئر کے باپ دادا کے مر جانے پہ جنازہ پڑہانا۔ اور جنازہ کے چند لمحے بعد دو پارٹیز بنانا جن میں ایک پارٹی کا کہنا کہ "مولوی ساب دعا کراو۔" اور دوسری پارٹی کا کہنا "نہیں مولوی ساب یہ شرک ہے۔" ہم یہ نہیں ہونے دیں گے۔ وغیرہ وغیرہ

یہ معاشرہ ہم نے خود خراب کیا ہے۔ ہم کون ہیں؟ کوئی ملا ہے تو کوئی اینٹی ملا۔  غریب  اور نہ سمجھ ملا مسجد میں بیٹھ کر  اپنی روزی کے لئے  اسلام میں دی گئی ریلیکسیشنز کو توڑ موڑ کے بیان کر دیتا ہے ۔ لوگ اپنا  اپنا مطلب اپنے اپنے طریقے سے  نکالتے ہیں اور الزام ملا پہ دہر دیتے ہیں۔ بھائی عربی کے دو لفظ کا ترجمہ کر نہیں سکتے تو آپکی سمجھدانی اسی کے پاس ہے جو مرضی ڈال دے اس میں۔  ہماری سمجھ دانی میں کسی اور کی ڈالی ہوئی چیز یقینا مسئلہ کرے گی۔

   فرقہ پرستی ، گروہ بندی ہم نے خود پیدا کی ہے۔  جس انسان کا کام ہی لوگوں کے نکاح اور جنازے پڑہانا ہے اس کے اس عمل سے آپ پوری قوم اور دہشت گر کیسے کہ سکتے ہیں؟ دہشت گردی کا یہ پیمانہ ہماری سمجھ میں نہیں آتا۔ ہمیں اپنی سمجھ دانی اپنے ہاتھوں میں رکھنی ہے۔ تاکہ کوئی سیکولر یا ملا اس میں اپنے الفاظ نہ ڈال سکے۔

ویڈیو دیکھیں اور لطف اندوز ہوں کس طرح چمچے کانڈے میز بچا کے "ٹی سی" کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

1 comments:

  1. If video is not appearing in some countries. watch here at this link

    https://www.facebook.com/books.and.funn/videos/1699133186976436/

    ReplyDelete